For the best experience, open
https://m.lazawal.com
on your mobile browser.
کفن

کفن

10:46 PM Jan 28, 2024 IST | Editor
Advertisement
Advertisement

Advertisement

ایم۔یونس ؔ، کمرہٹی(کولکاتا)
9903651585

آج رات دلاور خان تہجد کی نماز ادا کرنے کے لئے بہت قبل ہی اچانک نیند سے جاگ پڑے ۔وہ حسب معمول فجر کی نماز سے پچاس منٹ قبل تہجد کی نماز کے لئے بیدار ہوا کرتے تھے۔ ابھی ان کی الارم گھڑی کو بجنے میں دیڑھ گھنٹہ سے زیادہ وقفہ باقی تھا۔ وہ نیند کے غلبے سے بیدار ہوتے ہی کافی بے چین و پریشان تھے۔ وہ بار بار سوچ رہے تھے۔ انہوںنے جو خواب دیکھا ہے۔ کیا وہ ان کے لئے کوئی ہدایت تھی یا پھر کوئی برا سپنا تھا!؟۔ انہوں نے فوراً اسی وقت وضو کیا اور تہجد کی نماز ادا کرنے کے لئے مصلیٰ پر جا کھڑے ہوئے۔ نماز کے بعد دلاور خان اپنے رب العزت کے دربار میں دیر تک دُعا گو رہے۔ ’’یا اللہ ! کیا یہ خواب میرے لئے کوئی نیک عمل کی ترغیب دیتا ہے!؟، اگریہ میرے لئے ہدایت ہے تو اسے سچ کرنے کی مجھ میں توفیق عطا فرما‘‘ دُعا سے فارغ ہو کر دلاور خان قرآن پاک کی تلاوت میں مصروف ہو گئے۔ فجر کی نماز کے وقت انکی اہلیہ نے جب تہجد کی نماز میںپہلے اٹھنے پر سوال کیا تو انہوںنے جواب دیتے ہوئے کہا’’سائرہ! معلوم نہیں رات کو مجھے کیوں نیند نہیں آرہی تھی!؟ِ سوچا یوں ہی جاگتے رہنے سے بہتر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کی جائے۔‘‘ اس جملے کے ساتھ دلاور خان نے حقیقت حال سے روپوشی کر لی ۔اہلیہ بھی اس بات سے مطمٔن ہو گئیںکہ عمر ہونے پر اس طرح کی بے خوابی کی بیماریاں کبھی کبھی ہو جایا کرتی ہیں۔
دوسری رات کو دلاور خان اپنے بستر پر سو رہے تھے۔اچانک پھر آنکھوں میں وہی خواب منتشر ہونے لگا۔ دلاور خان نیند کی حالت میں پسینے سے شرابور ہو گئے۔ وہ گھبرا کر یکایک اٹھ بیٹھے۔ اس وقت رات کے دو بج رہے تھے۔ فجر کی جماعت ہونے میں ابھی ساڑھے تین گھنٹے کا وقت باقی تھا۔موسم کافی ٹھنڈا تھا۔ اسی یخ موسم میں دلاور خان اپے بستر سے اٹھے۔ وضو کیا تہجد کی نماز ادا کرنے لگے۔ نماز سے فارغ ہو کر دلاور خان اللہ تعالیٰ سے گڑ گڑا ، گڑ گڑا کر دعا کرتے رہے۔دکھ اور پریشانی میں ایک بندہ مومن کے لئے اللہ تعالیٰ کے دربار میں سجدہ ریز ہونے سے بہتر جگہ کوئی اور نہیں ہوتی ہے۔اسی امید میں دلاور خان اللہ تعالیٰ سے گریہ و زاری کر رہے تھے ۔ بیگم کی آنکھ جب تہجد کی نماز کے لئے کھلی۔ دلاور خان کو جائے نماز پر دعا کرتے ہوئے دیکھ کر متعجب ہو گئیں۔ انہوں نے دلاور خان سے کہا’’ آپ کی طبیعت توٹھیک ہے نا، آج آپ پھررات کے کس پہر سے تہجد کیلئے جاگ پڑے ہیں!؟‘‘۔’’ معلوم نہیں رات میں پھر مجھے نیند نہیں آرہی تھی اس لئے خود کو عبادت میں مشغول کر لیا‘‘۔ دلاور خان نے پھر بہانا بناتے ہوئے اہلیہ کو جواب دیا۔
صبح فجر کی نمازکے بعد دلاور خان رات کے خواب کی وجہ سے کافی اضطراب میں تھے۔ سارا دن دکان میں ان کا دل نہیں لگا۔ تمام کام نوکروں پر چھوڑ دیا ۔کائونٹر پر خاموش بیٹھے رہے آج کا اخبارپڑھنے کی غرض سے ہاتھوں میں لیا۔ بین الاقوامی خبروں پر جب نگاہ پڑی تو آبدیدہ ہو گئے۔ مظلوم فلسطینیوں کی کفنوں میں لپٹی ہوئی لاشوں کی تصویر دیکھ کر دلاور خان کے دل میں انی سی چبھنے لگی ۔ مظلوم فلسطینی بھائیوں کا بڑی وحشیانہ اور بے رحمی سے قتل عام ہو رہا تھا۔ فلسطین اور اسرائیل کے درمیان ہونے والی جنگ کو۱۰۸ دن گزر چکے تھے۔ صیہونی فوجیں ہر روز اوسطً ۳۰۰فلسطینیوں کا بے دردی سے قتل عام کر رہی تھی بم اور گولوںکی بارش سے سارا غزہ خون میں نہا چکی تھی ۔ انسانی جانوں کا اس قدر اتلاف ہو چکا تھا کہ غزہ میں ہر جگہ پانی کی قلت تھی مگر خون کی افراط تھی۔ جارحیت کی انتہا ہو چکی تھی۔ درندہ فوجیں فلسطینی شہداء کی لاشوں کو اپنے توپوں سے مسنح رہی تھیں۔ ان کے قبروں پر بلڈوزر چلا کر اپنی جیت اور کامیابی کا اعلان تو پوں پر اسرائیلی جھنڈا لہرا کر رہی تھیں۔ فاشسٹ قوتوں کی فوجیں اپنے ہر دہشت گردانہ عمل کو ان مظلوموں پر ڈھائے جا رہی تھیں۔ کون تھا جو سزا کے طور پر ان کے پائوں میں آگ کی بیڑیاں ڈالتا!؟ دنیا کی ساری مسلم مملکتیں دم کٹے شیروں کی طرح اپنے ماند میں پڑے پڑے وہیں سے گرج رہی تھیں ۔ جس کی مریل آواز پر ہو لوکاسٹ کرنے والا تشدد آمیز دجال ان کا بھونڈا مذاق اڑائے جا رہا تھا۔ ساری دنیا میں ہونے والی مخالفت کے باوجود وہ اپنے توپ بر داروں کو بڑی ڈھٹائی سے للکار کر ان بے گناہ معصوموں کو قتل و غارت کرنے کا حکم صادر کر رہا تھا ۔ اس دجال نے ساری دنیا کے ممالک کو اپنا فرعونی فرمان کا اعلان کرتے ہوئے کہا’ یہ جنگ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک ارض انبیاء کے سارے نفوس کو خونی کفن میں نہ لپیٹ دیا جائے گا‘۔ اس نے دنیا کے تمام ممالک کی شمولیت والا ادارہ ’ یونائیٹڈ نیشن(United Nation)‘ کی قرار داد کو بھی ٹھکرا دیا تھا۔ اسے اس بات کا تکبر تھا کہ وہ اپنے جدید ہتھیاروں سے اس قدر مضبوط اور توانا تھا کہ دنیا کی کوئی طاقت اسے دریا بُرد نہیں کر سکتا ہے ۔ وہ کہتا تھا۔’ اگر ایسی نوبت آئے گی تو وہ پورے دریا کو ہی اٹھا کر کسی صحرا میں پھینک دے گا‘۔ نعوذ با للہ! یہ اس کی خود سری اور بے لگامی کی رعونت کا خمار تھا۔ اللہ تعالیٰ کی غضب ناکی کے آگے اس کا ظالمانہ وجود لمحہ گزرنے سے پہلے ہی خس و خاشاک کی طرح مٹ جانے والا تھا۔ بس اس پر رب کا عتاب نازل ہونے کی دیر تھی۔ جس کے قبضے میں ہم سب کی جانیں ہیں۔
دلاور خان اپنے مظلوم فلسطینی بھائیوں کی اس طرح بے دریغ قتل عام و غارت کی خبروں کو پڑھ کر بیحد مغموم تھے۔ انہوں نے سارا دن کچھ کھایا پیا نہیں۔ پانچوں وقتوں کی جماعتوں میں روتے رہے۔ اپنے اس مظلوم فلسطینی بھائیوں کی بقا اور عافیت کی دعائیں کرتے رہے۔ اہلیہ نے رات کو سوتے وقت جب کھانے کی بڑی ضد کی۔ اس کے اصرار پر دلاور خان نے ایک چھوٹے سے گلاس میں دودھ کے دو چار گھونٹ کسی طرح سے اپنے حلق میں اتار لیا۔ بستر پر جا کر لیٹ گئے۔ نہ جانے پھر کب آنکھوں میں نیند آگئی۔ پھر وہی خواب آنکھوں میں تیرنے لگا۔ دلاور خان عجیب کشمکش اور بے چینی میں مبتلا ہو گئے۔ نیند سے جاگ پڑے۔ اسی وقت تہجد کی نماز پڑھی۔ بیگم کو سوتا ہوا چھوڑ کر تنہا گودام کی طرف نکل پڑے۔ انہوںنے اپنے ڈرائیور اور خلاصی کو فون کر کے جگایا جو گودام ہی میں سورہے تھے ۔ ڈرائیور اور دو خلاصی اپنے مالک کی پکار پر فوراً جاگ پڑے۔ دلاور خان نے انہیں کہا ’’ سفید کپڑے کے جتنے لٹھے گزشتہ ہفتے میں آئے ہیں، ان سب کو گاڑی میں اسی وقت لوڈ کرو‘‘ حکم سنتے ہی ملازم اپنے کام پر لگ گئے۔ گھنٹہ بھر کے اندر سارا مال ایک چھوٹا ہاتھی،منی ٹرک پر لاد دیا گیا۔ ڈرائیور نے دلاور خان سے کہا’’ مالک! یہ مال اس وقت کہاں پہنچانا ہے!؟ ‘‘۔’’ یہ تمام سفید کپڑے کے لٹھے اصلی مالک کے حکم سے جائے گا‘‘ دلاور خان نے ڈرائیور سے کہا’’مالک! میں سمجھا نہیں آپ کون سا اصلی مالک کے حکم کے بارے میں کہہ رہے ہیں!؟‘‘ڈرائیور نے دلاور خان سے پھر سوال کیا۔ ’’ چلو میں تمہارے ساتھ چلتا ہوں‘ تمہیں اس کے اصلی مالک کا فوراً ہی پتہ چل جائے گا‘‘ دلاور خان نے ڈرائیور کو جواب دیتے ہوئے کہا۔
گاڑی روانہ ہوگئی۔ گھنٹوں مسافت کے بعد ایک سنسان ہری گھاس کے میدا ن میں گاڑی پہنچی ۔ دلاور خان نے ڈرائیور سے کہا’’ گاڑی یہیں روک دو، ہماری منزل آچکی ہے۔‘‘ ڈرائیور اور دونوں خلاصی رات کے سناٹے میں سڑک سے دور اس کھلے میدان میں پہنچ کر حیرت زدہ تھے۔ اس وسیع میدان کے کنارے سے ایک دریا بہہ رہا تھا۔ جس کی چوڑائی کافی وسیع تھی ۔اس دریا کی لہروں میں بڑی غضبناکی تھی۔اس کا دہانہ سمندر سے ملا ہوا تھا۔ ڈرائیور سوچ رہا تھا دلاور صاحب کہیں ذ ہنی طور پر مالیخو لیا کی بیماری کا شکار تو نہیں ہوگئے ہیں جو اس وقت اس اندھیرے میدان میں ہم سب کو لے آئے ہیں۔ اتنے میں دلاور خان نے ڈرائیور اور خلاصیوں کو مخاطب کر کے کہا’’ آج کی مزدوری تم لوگوں کو ہر دن سے سات گنا زیادہ دوں گا،بس تمہارا کام یہ ہے کہ ان تمام گٹھروں کو اس دریا کے حوالے کر دو،مگریہ نہ پوچھنا کہ میںنے تمہیں ایسا کرنے کے لئے کیوں حکم دیا ہے۔‘‘
ڈرائیوراوردونوں خلاصی نے بنا کوئی سوال کئے آناً فاناً میں تمام سفید کپڑوں کے لٹھوںکو دریا میں ڈال دیا ۔ کام ختم ہوتے ہی دلاور خان کو روحانی سکون محسوس ہونے لگاانہوں نے ڈرائیور اور خلاصیوں کوملتجی نگاہوں سے دیکھا اور کہا’’ آپ لوگ اب واپس چلے جائیں، مجھے تنہا اس میدان میں کچھ دیر کے لئے چھوڑ دیں۔‘‘
رات کی آخری پہر ہو چکی تھی ۔ دلاور خان ساحل پر کھڑے اس دریا کے شور و غوغا مچاتی ہوئی لہروں کو غور سے دیکھ رہے تھے۔ ان کے کانوں میں پچھلی راتوں کے خواب میں گونجنے والی آوازیں ایک بار پھر سماعت سے ٹکرا نے لگیں ۔ کوئی انہیں کہہ رہا تھا۔ ’پہنچانا تواس کا کام ہے، ابھی ان مظلوم فلسطینیوں کو اناج و غلہ سے زیادہ کفن کی ضرورت ہے، وہ اپنے شہداء کو بر ہنہ ہوتا ہوا ہر گز نہیں دیکھ سکتا ہے۔‘
چند لمحوں میں یہ آوازیں اچانک معدوم ہو گئیں۔ دلاور خان ساحل پر کھڑے زار قطار رو نے لگے ۔ وہ کافی غمزدہ تھے۔ انکا دل مسوس کر رہ گیا۔ انہیں اپنے ملک سے جہاد کرنے کی اجازت نہیں تھی ۔ وہ اس قوم سے تعلق رکھتے تھے جس کے گھوڑے کی ٹاپوں سے کبھی گورے بھی ڈرتے تھے۔ وہ اللہ تعالیٰ سے محو دست بدعا رہے۔ اتنے میں نہ جانے کب دریا کے سطح آب پر سورج کی کرنیں پھوٹتی ہوئی نظر آئیں۔رات پر سورج کی سطح دیکھ کر دلاور خان کو قدرے سکون کا احساس ہوا۔ ان کے دل سے آواز آئی۔ ’اے اللہ! اس پھیلتی ہوئی روشنی کو بے گناہوں کے خون میں ڈوبی ہوئی غزہ کی وادی کو ان مظلوم فلسطینیوں کے حق میں فتح مبین میں بدل دے ۔آمین!

Advertisement
Author Image

Advertisement