For the best experience, open
https://m.lazawal.com
on your mobile browser.
انتخابی نتائج کے بعد بہار میں سیاسی سرگرمیاں

انتخابی نتائج کے بعد بہار میں سیاسی سرگرمیاں!

12:33 AM Jun 22, 2024 IST | Editor
Advertisement
Advertisement

Advertisement

پروفیسرمشتاق احمد

حالیہ پارلیامانی انتخاب کے نتائج کے بعد ریاست بہار میں ایک طرف ہر ایک سیاسی جماعت اپنی فتح اور شکست کا احتسابی جائزہ لے رہی ہے تودوسری طرف بر سراقتدار قومی جمہوری اتحاد کی حکومت جس کی باگ ڈور نتیش کمار کے ہاتھو ں میں ہے وہ قدرے زیادہ ہی فعال نظر آرہے ہیں اور اندرونِ خانہ سے چھن چھن کر یہ خبر بھی آرہی ہے کہ وزیر اعلیٰ نتیش کمار کی خواہش ہے کہ ریاست میں موجودہ اسمبلی کی مدت کار مکمل ہونے سے قبل ہی اسمبلی انتخاب کرایا جائے ۔ظاہر ہے کہ نتیش کمار کی قیادت والی جنتا دل متحدہ اور ان کے اتحادی بھارتیہ جنتا پارٹی ، لوک جن شکتی پارٹی (رام بلاس) اور جیتن رام مانجھی کو ریاست میں پارلیامانی انتخاب میں خاطر خواہ فائدہ پہنچا ہے اور اس وقت ان کے لئے سازگار ماحول دکھائی دے رہا ہے ۔عوام الناس کو اس سے کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے کہ اسمبلی کا انتخاب قبل از وقت ہو لیکن سیاسی بساط پہ شطرنج کی چالیں تو کچھ سوچ سمجھ کر ہی چلی جاتی ہیں اس لئے اگر وزیر اعلیٰ نتیش کمار اسمبلی انتخاب قبل از وقت چاہتے ہیں تو وہ ایسا زمینی حقیقت کی بنیاد پر ہی کہہ رہے ہوں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حالیہ پارلیامانی انتخاب میں انڈیا اتحاد کو جو امید تھی وہ پوری نہیں ہو سکی اور اس کے کئی وجوہ تھے ۔ اگر راشٹریہ جنتا دل کے سپریمو لالو پرساد یادو اور تیجسوی یادو اپنے گھریلو سیاسی مفادسے اوپر اٹھ کر انتخابی میدان جیتنے کی جد وجہد کرتے تو شاید کچھ اور ہی نتیجہ ہو سکتا تھا۔واضح ہو کہ ایک طرف وزیر اعلیٰ نتیش کمار کے ساتھ انتہائی پسماندہ، دلت اور بھارتیہ جنتا پارٹی کی وجہ سے اعلیٰ طبقے کے ووٹروں کی صف بندی ہوئی تو دوسری طرف نتیش کمار کی شخصی شبیہ اور ان کے ذریعہ کئے گئے ترقیاتی کام نے ان کے حق میں فضا سازگار کیا۔ جب کہ انڈیا اتحاد کی طرف سے تیجسوی یادو خود تو فعال رہے اور دن رات انتخابی جلسے کے ساتھ ساتھ فضا ہموار کرنے کی کوشش کرتے رہے مگر انتخابی اجلاس میں ان کے ساتھ کوئی دلت ، انتہائی پسماندہ ، مسلمان اور اعلیٰ طبقے کا کوئی ایسا چہرہ نہیں رہتاتھا جس سے عوام الناس میں ایک مثبت پیغام جاتا۔ مسلمانوں سے دوری بنائے رکھنے کی وجہ تو سمجھ میں آتی ہے کہ ان دنوں مبینہ سیکولر سیاسی جماعتوں کو یہ خوف ہے کہ وہ اگر مسلم چہرے کو آگے رکھیں گے تو اس سے ان کانقصان ہوگا۔مگرشاید انہیں یہ نہیں معلوم کہ جس طرح مبینہ سیکولر جماعت مسلمانوں سے دوری بنانے کی کوشش کرتی ہے تو مسلم طبقہ بھی اتنا نادان نہیں ہے کہ وہ ان چیزوں کو نہیں سمجھ رہا ہو۔یہی وجہ ہے کہ بہار میں آہستہ آہستہ ایک نئی سیاسی صف بندی کا آغاز ہو چکا ہے ۔ ارریہ جیسی سیٹ پر راشٹریہ جنتا دل امیدوار کا ناکام ہونا اور پھر چھپرہ میں بھی لالو یادو کی صاحبزادی رو ہنی اچاریہ کو شکست فاش ہونا یہ اشارہ ہے کہ بہار میں کس طرح کی سیاست پروان چڑھ رہی ہے ۔اس تلخ حقیقت سے تو کسی کو انکارنہیں کہ جہاں مسلم امیدوار ہوتے ہیں وہاں یادو طبقے کے ووٹوں میںبھی بکھرائو نظر آتا ہے جب کہ اقلیت مسلم طبقہ ایماندارانہ طورپر مبینہ سیکولر جماعتوں کے ساتھ رہتا ہے جس کا نقصان بھی ریاست کے مسلمانوں کو ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔حالیہ پارلیامانی انتخاب کے نتائج کے بعد سیتا مڑھی پارلیامانی حلقہ سے نو منتخب جنتا دل متحدہ کے ممبرپارلیامنٹ دیویش چندر ٹھاکر نے تو اعلانیہ کہا ہے کہ وہ مسلمانوں اور یادووںکا کوئی کام نہیں کریں گے۔انہوں نے اس کی وضاحت بھی کی ہے کہ ان کے حلقے کے مسلمانوں اور یادووں نے انہیں ووٹ نہیں کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ دیویش چندرٹھاکر نے جو کچھ کہا ہے اور اس پر جنتا دل متحدہ کی طرف سے کوئی دفتری وضاحتی بیان نہیں آیا ہے تو اس کا مطلب صاف ہے کہ ریاست میں کس طرح کی سیاست فروغ پا رہی ہے۔البتہ حال ہی میں جنتا دل متحدہ میں شامل ہونے والے سابق راجیہ سبھا ممبر اشفاق کریم نے ایک پریس کانفرنس کے ذریعہ دیویش چندر ٹھاکر کے بیان کی مذمت کی ہے اور اسے جنتا دل متحدہ کا بیان نہ کہہ کر دیویش چندر ٹھاکر کا ذاتی بیان قرار دیا ہے۔ لیکن پارٹی سپریمو وزیر اعلیٰ نتیش کمار کی طرف سے اس مسئلہ پر کوئی بیان نہیں آیا ہے۔بھارتیہ جنتا پارٹی کا تو پہلے سے ہی موقف صاف ہے کہ خود وزیر اعظم نریندر مودی پارلیامانی انتخابی جلسوں میں مسلمانوں کے متعلق اپنا نظریہ پیش کر چکے ہیں لیکن جنتا دل متحدہ کے سپریمو نتیش کمار نے کبھی بھی اس طرح کا بیان نہیں دیا اور وہ صرف اور صرف اپنے کاموں کے بدل میں وو ٹ مانگتے رہے۔افسوسناک بات تو یہ ہے کہ خود دیویش چندر ٹھاکر پارلیامانی انتخاب لڑنے پہلے بہار قانون ساز کونسل کے لئے ترہت (مظفرپور) گریجویٹ حلقے سے انتخاب لڑتے رہے ہیں اور ایک سال پہلے جب کونسل کا انتخاب ہوا تھا تو اس وقت ریاست میں جنتا دل متحدہ اور راشٹریہ جنتا دل کی اتحادی حکومت تھی ۔اس وقت نائب وزیر اعلیٰ تیجسوی یادو تھے اور انہوں نے بھی دیویش چندر ٹھاکر کی کامیابی کے لئے مہم چلائی تھی اور اس حلقے کے مسلم ویادو برادری کے ووٹوں کی بدولت ہی جناب ٹھاکر کونسل پہنچے تھے اور اس بار انہیں کونسل کا چیئر مین بھی بنایا گیا تھا۔ ظاہر ہے کہ اب جب وہ پارلیامنٹ پہنچے ہیں اور چوں کہ جنتا دل متحدہ کی بدولت مودی کابینہ تشکیل پائی ہے اس لئے ممکن ہے کہ ان کی نظر کابینہ پر ہو ورنہ وہ نتیش کمار کی سیاسی حد بندی سے باہر نہیں جا سکتے تھے۔
بہر کیف! ان دنوں ریاست میں یہ ہوا گرم ہے کہ وزیر اعلیٰ نتیش کمار جلد ہی اسمبلی تحلیل کر سکتے ہیں اور ہریانہ ، مہاراشٹر ، جھارکھنڈ کے اسمبلی انتخابات کے ساتھ بہار میں بھی انتخاب کے خواہاں ہیں ۔ اگرچہ ریاست بہار کی کئی اسمبلی سیٹوں کے ضمنی انتخاب کی تاریخ کا اعلان ہو چکا ہے اور راجیہ سبھا کی دو سیٹوں کے لئے بھی ضمنی انتخاب ہونا ہے ۔میرے خیال میں نتیش کمار کے حوالے سے جس طرح کی سیاسی چہ می گوئیاں ہو رہی ہیں اس میں بہت زیادہ دم نہیں ہے ۔ویسے سیاست میں کب کیا ہو جائے یہ کہنا مشکل ہے بالخصوص نتیش کمار کی سیاست کو سمجھنا کسی معمہ کے حل سے کم نہیں ہے ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ جنتا دل متحدہ کا قومی اجلاس دہلی میں اسی ماہ کے آخرہفتہ میں ہونے جا رہا ہے اس میں کون سا لائحہ عمل تیار ہوپاتا ہے اور مودی حکومت پارلیامنٹ میں اعتماد حاصل کرنے کے بعدسیاسی فضا میں کس طرح کی تبدیلی آتی ہے اس کا انتظار کرنا ہوگا۔ لیکن اس حقیقت سے انکارنہیں کیا جا سکتا کہ برسراقتدارپارٹی کے ساتھ ساتھ اپوزیشن اتحاد بھی اسمبلی انتخاب کی تیاری میں لگ گیا ہے اور کہاں کس طرح کی چوک ہوئی اس پر غوروفکر بھی کیا جا رہا ہے کہ آنے والے اسمبلی انتخاب میں ان کمیوں کو دور کیا جا سکے۔بالخصوص راشٹریہ جنتا دل کے اتحادی کانگریس اوربایاں محاذ بھی حرکت میں ہے اور اسمبلی انتخاب کے مدنظر اپنا لائحہ عمل بھی تیار کر رہے ہیں ۔ دراصل بہار میں وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے یہ اعلان کیا ہے کہ اسمبلی انتخاب سے پہلے پانچ لاکھ سے زائد بیروزگاروں کو روزگار دیا جائے گا اور اس کے لئے مختلف محکموں کی طرف سے اسامیوں کے اعداد وشمار بھی ذرائع ابلاغ میں آنے لگے ہیں ۔وزیر اعلیٰ خود اس میں ذاتی طورپر دلچسپی لے رہے ہیں اور ان کی طرف سے یہ بیانات بھی جاری کئے جا رہے ہیں کہ پارلیامانی انتخاب میں انہوں نے جو روزگار کے متعلق وعدہ کیا تھا اسے جلد از جلد پورا کیا جائے گا۔ممکن ہے کہ ایسا ماحول اس لئے بنایا جا رہا ہے کہ کبھی بھی اسمبلی انتخاب کااعلان ہو سکتا ہے۔
موبائل:9431414586

Advertisement
Author Image

Advertisement