For the best experience, open
https://m.lazawal.com
on your mobile browser.
روزہ کی اہمیت

روزہ کی اہمیت

11:45 PM Mar 21, 2024 IST | Editor
Advertisement
Advertisement

۰۰۰
ریاض فردوسی
9968012976
۰۰۰
روزہ صرف مسلمانوں کے لئے نہیں ہے، بلکہ یہ صدیوں سے عیسائیت، یہودیت، کنفیوشیزم، ہندو مت، تاؤ مت جیسے مذاہب میں بھی ہے،حتیٰ کہ ہندوؤں میں بھی یہ ایک خاص طریقے کے ساتھ رائج ہے۔ میں
سورہ البقرہ۔آیت۔183۔ میں اللہ یہ فرماتا ہے،اے لوگوجوایمان لائے ہو!تم پر روزہ رکھنا فرض کردیاگیا جیسے ان لوگوں پر فرض کیاگیا تھاجوتم سے پہلے تھے تاکہ تم متقی بن جاؤ۔

Advertisement

شمالی امریکہ میں کچھ معاشروں نے گناہ کی معافی اور تباہ کاریاں دور کرنے کے لئے روزے رکھے۔ پیرو اور میکسیکو کے مقامی امریکیوں نے اپنے خداؤں کو راضی کرنے کے لئے روزے رکھے۔ سابقہ اقوام جیسے اسوریوں اور بابل کے باشندوں نے توبہ کی ایک شکل کے طور پر روزے رکھے۔ یہودی سالانہ کفارہ یا یوم کفارہ کے دن تزکیہ اور طغیانی کی ایک شکل کے طور پر روزہ رکھتے ہیں۔ مغرب کے بعض ملکوں میں افطاری نے ایک الگ شکل اختیار کی ہے۔ بھوک ہڑتال بھی روزے کی ایک شکل ہے۔آج اسے ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیاجاتا ہے۔ آزادی ہندمیں جدوجہد کے رہنمامہاتماگاندھی (موہنداس گاندھی) نے مقبول بنایا تھا۔ ابتدائی ادوار میں عیسائیوں نے پہلی دو صدیوں کے دوران، تزکیہ اور توبہ کے ساتھ روزہ رکھاتھا۔ عیسائی چرچ نے بپتسمہ اور ہولی کمیونین کے تقدس کے حصول اور پجاریوں کے تقرر کے لئے رضاکارانہ تیاری کے طور پر روزہ رکھا۔بعد میں ان کو لازمی کردیا گیا اور دوسرے دن بعد میں شامل کردیئے گئے۔ لینن روزے کو چھٹی صدی میں 40 دن تک بڑھایا گیاتھا، جہاں ہر دن ایک شئے کھانے کی اجازت تھی۔ روزہ بیشتر پروٹسٹنٹ گرجا گھروں نے برقرار رکھا تھا اور اصلاح کے بعد کچھ معاملات میں اسے اختیاری بنایا گیا تھا۔ تاہم سخت احتجاج کرنے والوں نے چرچ کے دونوں تہواروں اور ان کے روایتی روزوں کی مذمت کی تھی۔ رومن کیتھولک ایش بدھ اور اچھے دن یعنی Good Friday جمعہ کو روزہ رکھتے ہیں کیونکہ ان کے روزے میں کھانے پینے سے جزوی پرہیز یا مکمل پرہیز شامل نہیں ہے۔
روزہ بنیادی طور پر روحانی نظم و ضبط اور خود پر قابو پانے کے لئے ہے۔جسمانی بھوک سے، ایک مقررہ مدت کے لئے، اپنی مرضی سے خود کو ترک کرنے کی عقیدت کا ایک عمل ہے۔جب فجر کی اذان ہوتی ہے تو مسلمان فجر سے شام تک (مغرب) کھانے پینے سے دوررہتے ہیں۔ روزہ شروع کرنے کا یہ وقت سمجھا جاتا ہے، جب باہر کھڑا کوئی شخص سیاہ دھاگے میں سے کسی سفید دھاگے کو بتا سکتا ہے، یعنی سورج کی روشنی اور رات کی تاریکی۔
اسلام کے اکثر احکامات کی طرح روزے کی فرضیت بھی بتدریج عائد کی گئی ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتداء میں مسلمانوں کو صرف ہر مہینے تین دن کے روزے رکھنے کی ہدایت فرمائی تھی، مگر یہ روزے فرض نہ تھے۔ پھر سن 2ہجری میں رمضان کے روزوں کا یہ حکم قرآن میں نازل ہوا، مگر اس میں اتنی رعایت رکھی گئی کہ جو لوگ روزے کو برداشت کرنے کی طاقت رکھتے ہوں اور پھر بھی وہ روزہ نہ رکھیں، وہ ہر روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دیا کریں۔ بعد میں دوسرا حکم نازل ہوا اور یہ عام رعایت منسوخ کر دی گئی۔ لیکن مریض اور مسافر اور حاملہ یا دودھ پلانے والی عورت اور ایسے ضعیف لوگوں کے لیے، جن میں روزے کی طاقت نہ ہو، اس رعایت کو بدستور باقی رہنے دیا گیا اور انہیں حکم دیا گیا کہ بعد میں جب عذر باقی نہ رہے تو قضاء کے اتنے روزے رکھ لیں ،جتنے رمضان میں ان سے چھوٹ گئے ہیں۔
انسانی ذہن اس بات کو سوچ سکتا ہے کہ اسلامی روزے وقت کی پابندی سے کھانے کی عادت کے طور پر جو مشاہدہ کرنے والوں کے لئے عام دن کے معمولات کو بدل دیتے ہیں، نیند کے نمونوں اور عام صحت پر مضر صحت اثرات مرتب کرسکتے ہیں۔ایک تحقیق کے مطابق رمضان کے روزے میں نیند کے نمونوں اور اس سے وابستہ ہارمون کی پیداوار میں ردوبدل دیکھاگیا ہے۔
جدید سائنس دانوں کی تحقیق کے مطابق (امریکی ،جاپانی اور چینی سائنس داں شامل ہیں)ہزاروں اسکول کے بچوں کی اعدادوشمارانہ تقابل کیا گیا، جن میں سے کچھ حمل کے دوران رمضان کے مہینے کے بغیر پیدا ہوئے تھے اور جن میں سے ایک حصہ جہاں رمضان حمل کے ساتھ تھا، ان مائوں کا مشاہدہ کرتے ہوئے جورمضان میں حمل میں نہ تھے وہ بچے ،کم ذہانت، کم علمی صلاحیت، اور جوانی میں کم ترقی کا انکشاف کیا ہے۔ وہ بچے جوشکم مادر میں رمضان کے مہینے میں تھے ،جن کی والدہ نے روزہ رکھاتھا، وہ بچے بہت ہی زیادہ ذہین اور فہم وفراست کے مالک ہوئے۔حمل کے دوران رمضان کا روزہ رکھنا حاملہ عورتوں کے لئے فائدہ مند ثابت ہوا۔ برلن اور برطانیہ کے محکمہ تعلیم نے رمضان المبارک کے دوران طلباء کو روزہ رکھنے سے روکنے کی کوشش کی ہے، کیونکہ ان کا دعویٰ تھا کہ نہ کھانے پینے سے حراستی کے مسائل اور صحت کے اوہرخراب اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ لیکن جب وہاں کے سائنس دانوں نے تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ رمضان کاروزہ صحت کے لئے آب حیات کا درجہ رکھتا ہے۔رمضان کے روزے رکھنے سے بہت سی جسمانی بیماریوں سے نجات مل جاتی ہے۔کینسر جیسے ملہک بیماری کے جراسیم بھی روزہ رکھنے سے ختم ہوجاتے ہیں۔روزہ رکھنے سے جسم امراض سے مقابلہ کرنے کے لئے بہت زیادہ طاقت ورہوجاتاہے۔
رمضان کے روزوں سے وابستہ بہت سارے صحت سے متعلق فوائدہیں۔روزہ دار کے لئے پانی کی مقدار کی کمی نہیں آنی چاہئے۔جتنا ہوسکے زیادہ تلا ہوا کھانا نہ کھایا جائے۔زیادہ ریفائن یا تیل کا کھانے سے روزہ کا پورا فائدہ جسم کو نہیں حاصل ہوتاہے۔زیادہ بڑے جانور کاگوشت بھی نہ کھایاجائے ۔زیادہ مچھلی بھی نہ کھایاجائے۔ہفتہ میں یا رمضان کے بعد کھاناچائیے ۔اگرگوشت ہی کھاناہے تو بکرے کا یا دیسی مرغی کا کھایاجائے۔رمضان میں فاسٹ فوڈ کھانے سے پرہیز کرناچائیے۔اس لئے کہ الٹا پلٹاکھانا صحت مند افراد میں مضر اثرات مرتب کرسکتے ہیں۔ سحری اور افطار کے اوقات میں بھاری خوراک نہ لیاجائے۔جتناہوسکے بہترین قسم کاکھجور استعمال کرناچائیے۔کوشش کرے کہ چاہے سخت گرمی کیوں نہ ہو،ہلکا گرم پانی سے ہی افطارشروع کیاجائے،اس کے بعد زیادہ ترپھل کااستعمال ہو۔بعض بھائیوں کوپھل میسر نہیں ہوتے،وہ بریانی یااسی طرح کا سخت کھانے سے افطارشروع کرتے ہیں۔اس سے بچناچائیے۔دن بھربھوکہ رہ کرہلکا ہی کھاناکھایاجائے۔ پانی بھی جلدی جلدی نہ پی جائے،رک رک کرپانی پی جائے،سنت رسول ﷺ کاخیال رکھاجائے،اگرچہ گرمی زیادہ ہواورپیاس کی شدت بہت ہوتب بھی اس کاخیال رکھے۔
رمضان کا روزہ ہمارے صحت کے لئے نعمت ہے ،بشرطیکہ کہ کھانے پینے میں احتیاط اور پانی کی مجموعی مقدار کاخیال ہو۔ جن لوگوں کو طبی ضرورت ہے ان کو اگر روزے سے پہلے یا اس کے دوران صحت سے متعلق دشواری کا سامنا کرنا پڑے تو انہیں طبی مشورہ لینا چاہئے۔ روزہ رکھنے کا دوران عام طور پر معمولی وزن میں کمی آتی ہے، لیکن وزن اس کے بعد واپس آجاتاہے۔
ایرانی مریضوں کارمضان کے روزہ میں جائزہ لیا گیا کہ رمضان کے دوران روزہ رکھنے سے اعتدال پسند (جسمانی اعضاء میں کسی بھی اعتبار سے کمزورلوگوں میں) یا گردوں کی شدید بیماری والے مریضوں میں گردوں کی چوٹ پیدا ہوسکتی ہے یانہیں؟ لیکن تحقیق کے بعد معلوم ہواکہ پتھر کے مرض کے شکارمریضوںکوروزہ رکھنے سے بے انتہافائدہ حاصل ہوا۔ گردوں کے ٹرانسپلانٹ مریضوں کے لئے روزہ نقصان دہ نہیں تھا۔تاہم چونکہ شدیدبیماری سے دوچار افراد کو روزے کی پابندی سے استثنیٰ حاصل ہے، اس کی بجائے رمضان کے روزے چھوڑ سکتے ہیں،لیکن روزہ کھ لے توان کی صحت کے لئے فائدہ مند ہے۔
رمضان کا روزہ حاملہ خواتین کے لئے ممکنہ طور پر مؤثرفائدہ ثابت ہوتاہے کیونکہ اس سے منسلک مزدوری اور حمل کے ذیابیطس کا خطرہ ختم ہو جاتا ہے، سب سے بڑھ کرروزہ بچے کے وزن پر اثر اندازنہیں ہوتا ہے۔ ہاں اگر اس سے عورت یا بچے کی جان کو خطرہ ہو تو روزہ نہیں رکھنا جائز ہے، تاہم، بہت ساری صورتوں میں حاملہ خواتین پیچیدگیوں کی نشوونما سے پہلے معمول کی بات ہیں۔ لہذا حاملہ خواتین کے لئے روزہ چھوڑنے اور فدیہ ادا کرنے کا مشورہ دیا جاسکتا ہے (اگر خواتین ادائیگی کرسکیں تو، غریب لوگوں کو پوری طرح چھوٹ دی جاسکتی ہے)تاہم اس بات کو بھی ذہن میں رکھنا ہوگا کہ اگر کسی کو پانی کی کمی یا دیگر طبی خطرات لاحق ہیں، جو سنگین نتائج کا باعث بن سکتے ہیں، تو پھر اسے روزے چھوڑنے کی اجازت ہے۔ رات بھر پانی کی مقدار میں پھیلاؤ (ایک ہی وقت میں زیادہ سے زیادہ پینے کے بجائے) اور افطار کے موقع پر زیادہ غذا نہ کھائیں کیونکہ عام طور پر سورج غروب پر زیادہ سے زیادہ پانی اور کھانے کی مقدار اچھے قسم کا کھجوراورپھل کی صورت میں ہونی چائیے (ضرورت سے زیادہ کھانے کی اسلام شریعہ میں ممانعت ہے)
اگر کسی حاملہ عورت کو،یاکسی بھی شخص کوصحت سے متعلق خدشات، دودھ پلانے یا حاملہ (اس معاملے میں فدیہ) یا سخت جسمانی مشقت کی ضرورت میں کام کرنے کا خطرہ ہے تو کوئی شخص اپنا روزہ توڑ سکتا ہے یا اسے دوسرے مہینوں میں بدل سکتا ہے یا فدایہ ادا کرسکتا ہے۔کسی شخص کے لئے جان جانے کاواضح خطرہ ہونے پر روزہ چھوڑنا جائز ہے۔

Advertisement
Author Image

Advertisement