For the best experience, open
https://m.lazawal.com
on your mobile browser.
جنگ کی پیشانی پر لکھی گئی محبت کی ایک دلپذیر کہانی   جنگ، میزائل اور محبت

جنگ کی پیشانی پر لکھی گئی محبت کی ایک دلپذیر کہانی جنگ، میزائل اور محبت

12:07 AM Jun 02, 2024 IST | Editor
Advertisement
Advertisement

۰۰۰
سراج فاروقی،پنویل
8108894969,
۰۰۰
جنگ کی پیشانی پر لکھی گئی محبت کی ایک دلپذیر کہانی ہے،احمد حسنین صاحب کا یہ ناول۔ اس میں جہاں جنگ کی وحشت ناکی ہے، دہشت گردی ہے،دھواں ، دھماکہ اور انسانی لاشوں کے اڑتے پرخچے اور گوشتوں کے جلنے کی بوئیں ہیں ۔ وہیں محبت اور حسن کی جلوہ سامانیاں بھی ،اپنی تمام تر رعنائیوں اور گل افشانیوں کے ساتھ موجود و متمکن ہیں ۔ ان دو چیزوں کو یعنی جنگ اور محبت کو انہوں نے بہت باریک بینی سے دیکھا ،پرکھا ، سمجھا اور کاغذ پر کینوس کیا ہے ۔ قاری ایک ایک منظر پر عش عش کر اٹھتا ہے۔اس کادل دہلتا ہے۔کبھی کانپتا ہے تو کبھی خوشی و انبساط سے لبریز ہوکر جھوم جاتا ہے ۔
اس ناول کے ذریعہ، انہوں نے کریہ و بدصورت حقیقتیں دکھائی ہیں۔ خاص کر عالمی دہشت گردی اور سیاست کو طشت از بام کیا ہے ۔ عالمی سیاست کی گندگی اور بھونڈی چال کو پڑھنا اور دیکھنا ہو تو میرا خیال ہے،اس ناول کو ضرور پڑھنا چاہیے ۔
یوکرین ایک پر امن اور خوبصورت ملک ہے۔ یہاں سترہ اٹھارہ لاکھ میں ڈاکٹر بنائے جاتے ہیں۔ جبکہ ہمارے ملکِ عزیزمیں(ناول کے مطابق) ساٹھ ستر لاکھ درکار ہوتے ہیں۔کتنی بری بات ہے؟ ہمارے ملک کے نوجوانوں کے لیے یہ ایک نعمت سے کیا کم ہے ؟لیکن ایسا ملک جنگ میں مبتلا ہے ۔ مبتلا کیا ہے ؟ ایک جارح ملک نے اپنی انا اور طاقت کے زغم میں، اس پر جنگ مسلط کردی ہے ۔لیکن مجال ہے، جو کوئی آواز اٹھائے،یہاں تک کہ خود ہمارا دیس ،روس کے خلاف بولنے کے لیے راضی نہیں کہ وہ ہمارا عزیز و ہمدم ہے ۔عزیز ہے تو غلط کرے۔ لیکن ہم مذمت جیسا لفظ بھی استعمال نہیں کریں گے۔ کیونکہ رشتوں میں رخنہ پڑجائے گا۔ اور یہی حال دوسرے ممالک کا بھی ہے ۔ سب اس کو مٹتا ہوا ۔ سسکتا اور فنا ہوتاہوا،دیکھنا چاہتے ہیں ۔لیکن بچتا ہوا نہیں۔ کیونکہ ایک جارح اور خود کفیل ملک اس پر اَٹیک کیا ہوا ہے۔ یہاں وہی بات سچ ثابت ہوتی ہے۔ کون کہے؟ راجہ اپنا پچھواڑا ڈھک لو۔
اور ہاں! کچھ لوگ دوا، کھانا اور کفن دینے کا کام ضرور کررہے ہیں،انسانی ہمدردی کے ناتے۔ اب کوئی ان سے سوال پوچھے۔ یہ انسانی ہمدردی ہے بھائی یا شیطانی ؟اور جب یہی انسانی ہمدردی ہے تو شیطانی ہمدردی کیا ہوتی ہے؟
احمد حسنین کا یہ ناول کھلا کھلا احتجاج ہے جنگ کے خلاف ۔عالمی اور گندی سیاست کے خلاف ۔ جس میں ایک غریب اور شانت ملک کو سانس نہیں لینے نہیںدیا جا رہا ہے ۔ اسے صفحہ ء ہستی سے نیست و نابود کیاجارہا ہے ۔ کچھ لوگ کھلا کھلا تو کچھ خاموش رہ کر مٹا رہے ہیں ۔ناول پڑھنے سے یہی تاثر ملتا ہے ۔
اس ناول میں محبت کا ٹرائنگل بھی موجود ہے۔طاہر ،استوتی اور کمل شاہ ۔ کمل شاہ استوتی کو چاہتا ہے ۔ لیکن استوتی اسے لفٹ نہیں دیتی ۔ وہ طاہر کو پسند کرتی ۔ یہ بات کمل شاہ کو اچھی نہیں لگتی ہے ۔ وہ جنگ کے دوران ہی، استوتی کو پانا چاہتا ہے ۔ لیکن پاتا نہیں ہے۔انسان کی کمینگی کا ایک روپ یہاں یہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے کہ انسان اپنی جبلی خواہشات بسترِ مرگ پر بھی نہیں چھوڑتا ہے۔انسانی فطرت کا یہ تاریک اور گھنونا پہلو ہے۔
طاہر، یوکرین میں استوتی اور کمل شاہ کی مدد کرتا ہے ۔ اسی کی بہتر کاوشات سے ہی ، دونوں بھارت کی زمین پرآپاتے ہیں صحیح و سالم ۔ لیکن بھارت آتے آتے استوتی ،طاہر کے دامِ عشق میں پوری طرح گرفتار ہوجاتی ہے۔ اور وہ فیصلہ کرلیتی ہے ۔ اس کی لائف میں طاہر نہیں تو کچھ بھی نہیں اور کوئی بھی نہیں۔ طاہر بھی اس کے جذبات کی قدر کرتا ہے اور راضی ہوجاتا ہے ۔ دونوں کورٹ میرج کرلیتے ہیں ۔ گھر والے تھوڑی بہت ناراضی کے بعد راضی ہوجاتے ہیں ۔ ان کے رشتے کو قبولیت کی مہر لگادیتے ہیں ۔
لیکن کمل شاہ کی حسد کی وجہ سے وہ ’’لَوجہاد‘‘ کے چنگل میں پھنس جاتے ہیں ۔ اب وہ کیسے وہاں سے نکلتے ہیں؟ یہ جاننے کے لیے ناول پڑھنا ہوگا ۔ کہانی کا یہ بیسٹ ٹرننگ پوائنٹ ہے۔
ناول ایسے ہی کئی مسئلوں کو اٹھاتا ہے تو کہیں کہیں جواب بھی دیتا ہے ۔
اس ناول کا ایک منظر بہت پیارا اور شاندار لگا مجھے ۔اس کا میں یہاں ذکر کرنا چاہوں گا ۔ بھارت دیش ’’مشن گنگا‘‘ کے تحت یوکرین میں پھنسے طالب علموں کو لاتا ہے ۔ اس میں پاکستان،بنگلہ دیش اور نیپال کے بھی طالب علم ہوتے ہیں ۔ بھارت اپنے اس کام سے دنیا والوں کو آپسی بھائی چارہ اور میل محبت کا اچھا پیغام دیتا ہے ۔ اسی طرح اگر ایشیائی کنٹریز مل کر رہیں اور ایک دوسرے کے سکھ دکھ میں کام آئیں تو ایشیا بے نظیر و بے مثال بن سکتا ہے ۔بھارت نے تو شروعات کی ہے ۔ اب اس کے خلوص اور پیار کی داد دینا چاہیے ۔ اور دوسرے لوگوں کو بھی آگے آنا چاہیے ۔ بھارت کے مقابلہ میںیہ چھوٹی چھوٹی طاقتیں ہیں ۔ لیکن جنگ کا شوق اور جنون بھی رکھتی ہیں ۔ ان کو اس سے باز آکر علاقے کی تعمیر و ترقی اور خوشحالی کے کام کرنا چاہیے ۔ آپسی بھائی چارہ اور امن کو فروغ دینا چاہیے ۔ اسی میں ایشیا کی ہی نہیں، پوری عالمِ انسانیت کا فلاح و بہبود ہے ۔ ناکہ جنگ و جدل کے خواب دیکھنے اور اس کو عملی جامہ پہنانے میں ۔
یوکرین اور روس کو ہم دیکھ رہے ہیں۔ ہم کو اس سے کچھ سبق لینا چاہیے ۔ امن ہی زندگی ہے اور زندگی ہی امن ہے ۔ اس سے ہم کو دور نہیں ہونا چاہیے ۔ امن کے در پر ہی زندگی کی خوبصورت اور بے مثال جنت تعمیر ہوسکتی ہے۔
احمد حسنین ناول لکھنے میں یکتا و یگانہ ہیں ۔ وہ بڑے زود نویس بھی ہیں اور بالیدہ ذہن بھی ۔ بہت جلد اپنے کام سے فراغت پا لیتے ہیں ۔ اس سے پہلے بھی ان کے دو ناول۔۔۔۔۔۔۔۔اندھیروں کے مسافر اور منزل منزل۔۔۔۔۔۔۔۔۔منظر ِعام پر آکر مقبول ہوچکے ہیں اور سنجیدہ قاری سے داد و تحسین وصول کیے ہیں ۔ یہ ان کا تیسرا ناول ہے ۔ متنوع موضوعات پر وہ بے دھڑک قلم اٹھاتے ہیں اور بڑی چابکدستی و بے باکی سے افسانہ بیان کردیتے ہیں۔ میں انھیں اس نئے ناول کی مبارک باد دیتا ہوں اور امید کرتا ہوں اردو داں طبقہ اس ناول کو اپنی آنکھوں کا سرمہ بنائے گا اور جنگ و جدل کا خواب دیکھنے والے یا دنگے فساد سے امن و امان کی فضا کو تہہ و بالاکرنے والے ،اس ناول سے سبق سیکھیں گے اور اپنی ناپاک مہم سے دور رہیں گے ۔ناول خوب صورت شائع ہوا ہے ۔مجلد ہے۔ قیمت بھی واجبی ہے ۔ بس ضرورت ہے قاری کی،تاکہ قلم کار کی محنت ٹھکانے لگے ۔
ختم شد
٭٭٭

Advertisement

Advertisement
Author Image

Advertisement