For the best experience, open
https://m.lazawal.com
on your mobile browser.
تشہیرڈرامہ  جادوئی نگری

تشہیرڈرامہ: جادوئی نگری

12:06 AM Jun 02, 2024 IST | Editor
Advertisement
Advertisement

مرکزی کردار:
مقدس پروین: استاد
بہرام( طالب علم )
شہلا( طالبہ )
انصار صاحب( بہرام کے والد)
شمسہ کنول( شہلا کی والدہ)
ثانوی کردار:
سات سے چودہ سال کے نونہال
پہلا منظر:
پردہ اٹھتا ہے۔
(ّ کمرہ جماعت میں تیس کے قریب طلبہ موجود ہیں۔جوں ہی کمرہ جماعت میں بزم ادب کی منتظم محترمہ مقدس پروین داخل ہوتی ہیں ۔تمام بچوں کے چہروں پر خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے۔)
مقدس پروین ( تمام طلبہ کو غور سے دیکھتے ہوئے) :’’میں جانتی ہوں کہ آپ سب اس لیے خوش ہو رہے ہیں کہ آج سبق نہیں پڑھا جائے گا بلکہ آپ سے حمد، نعت کہانیاں، نظمیں سنانے اور پڑھنے کے ساتھ ساتھ پہیلیاں بوجھنے کو کہا جائے گا۔‘‘
شہلا( چہکتے ہوئے): ’’جی ۔۔۔آپ نے درست فرمایا ہے۔‘‘
بہرام ( مسکراتے ہوئے): ’’آپ کو ہم سب اس لیے بھی پسند کرتے ہیںکہ آپ ہر ماہ بزم ادب کی نشست کا انعقاد کرواتی ہیں۔‘‘
مقدس پروین( قدرے سنجیدگی سے):’’ چلیں۔۔۔تعریف بہت ہو گئی ہے ۔ اب بزم ادب کا پروگرام شروع کر تے ہیں۔‘‘
ّ( ایک نونہال جلدی سے کھڑا ہوتا ہے اورحمد سنانے لگتا ہے۔تمام بچے خاموشی سے سننے میں مشغول ہو جاتے ہیں۔)
پردہ گرتا ہے۔
٭٭٭
پردہ اٹھتا ہے
دوسرا منظر:
( کھیتوں کے درمیان ایک کچا مکان ہے۔ اُس کے صحن میں شہلا اپنی والدہ سے گفتگو کر رہی ہے۔)
شہلا: ’’امی جان!آپ نے اردو لکھنا پڑھنا کیسے سیکھا؟‘‘
شمسہ کنول:میرے والد یعنی تمھارے نانا ابو اخبارات پڑھنے کے عادی تھے۔ اُن اخبارات میں بچوں کا صفحہ ہوتا تھا اُسے پڑھتے پڑھتے اردو پڑھنا آگئی اورپھر ماہ نامہ ہمدرد نونہال اور ماہ نامہ تعلیم و تربیت گھر میں آنے لگے تو یوں بہت کچھ سمجھنے اور سیکھنے کا موقع ملا۔ مجھے اباجی نے ایک جادوئی نگری یعنی کتب اوررسائل کی دنیا میں داخل کروایا جس کے بعدبہت کچھ حاصل ہوا۔‘‘
شہلا: ’’واہ ۔۔امی جان۔۔۔واہ۔۔۔۔آپ نے میرے لیے کچھ آسانی پید اکر دی ہے۔بہت شکریہ۔‘‘
(شہلا بات ختم کرتے ہی اپنے کمرے کا رخ کرتی ہے اوراپنی ڈائری پر کچھ لکھنا شروع کر دیتی ہے۔)
پردہ گرتا ہے۔
٭٭٭
پردہ اٹھتا ہے۔
تیسرا منظر:
انصار صاحب: ’’بہرام۔۔۔تمھیں کتنی بار کہا ہے کہ ہفت روزہ ’’ اخبار جہاں‘‘ اور’’ فیملی میگزین ‘‘ پڑھا کرو تاکہ تمھیں اردو لکھنا آئے۔ تم تو ماہ نامہ ’’ صلاح کار‘‘اور’’ گل بوٹے‘‘ کے مطالعے سے بھی گریز کرتے ہو۔‘‘
بہرام:’’ معذرت چاہتا ہوں ابا جان!جب سے اردو کے پرچے میں دوستوں سے بھی کم نمبر آئے ہیں۔ اب سوچ لیا ہے کہ میں اچھے رسائل اوراخبارات میں شائع ہونے والے بچوں کے صفحات پڑھا کروں گا۔‘‘
( چند لمحوں کے بعد)
’’ اس وقت کون سا اخبار پڑھ رہے ہیں۔‘‘
(بہرام نے انصار صاحب کے ہاتھوں میں اخبار کو دیکھتے ہوئے سوال کیا۔)
انصار صاحب:’’ آج روزنامہ اساس خرید کر لایا ہوں۔ اس میں بازیچہ اطفال بھی موجود ہے جس میں تمھاری لیے دل چسپ سائنس فکشن کہانی بھی موجود ہے۔‘‘
بہرام ا( خوشی سے چیختے ہوئے اخبار ابو کے ہاتھ سے لیتے ہوئے): ’’یا ہو۔۔۔میں اسے ضرور پڑھوں گا۔‘‘
پردہ گرتا ہے۔
٭٭٭
پردہ اٹھتا ہے
چوتھا منظر:
’کمرہ جماعت میں تمام بچے بڑے خوش دکھائی دے رہے ہیں اورسب نے اپنی کاپیاں کھول رکھی ہیں اوراس پرلکھی گئی معلومات کو یاد کر رہے ہیں۔)
مقدس پروین:’’ آپ کے چہروں کو دیکھ کر لگ رہا ہے کہ آپ سب خوب تیاری کے ساتھ آئے ہیں۔‘‘
بہرام:’’ آپ نے ہمیں کہا تھا کہ آج ہم نے بچوں کے رسائل اور اُن اخبارات کے نام بتانے ہیں جو بچوں کے لیے صفحات شائع کرتے ہیں اس لیے مکمل تیاری کے ساتھ آئے ہیں۔‘‘
شہلا : ’’جی ۔۔۔میری والدہ نے بتایا ہے کہ وہ اپنے بچپن میں ماہ نامہ ہمدرد نونہال اور تعلیم و تربیت پڑھا کرتی تھیں۔‘‘
مقدس پروین:’’ٹھیک ہے۔ آپ سب باری باری جو معلومات جمع کر کے آئے ہیں وہ بتائیں گے، لیکن کوشش کریں کہ جو معلومات کسی نے پہلے بیان کر دی ہوں وہ نہ دہرائیں تاکہ ہمارا وقت بچ سکے ۔آپ سب اپنے اپنے رول نمبر کے مطابق باری باری کھڑے ہوں گے۔‘‘
( تمام بچوں نے ہاتھ اوپر کرکے تابعداری کرنے کا عہد کرلیا۔)
پہلا طالب علم: ’’ ماہ نامہ ساتھی، ذوق و شوق، انوکھی کہانیاں،بچوں کا باغ ، بچوں کی دنیا اورجگنو کے نام میرے علم میں ہیں۔‘‘
دوسر ا طالب علم:’’ میرے گھر میں ماہ نامہ کرن کرن روشنی، پھول، فہم دین آتے ہیں۔‘‘
تیسرا طالب علم: ’’میرے ماموں کے گھر ماہ نامہ جگمگ تارے، تعلیم و تربیت ، بچوں کا پرستان آتے ہیں جو میں شوق سے پڑھتا ہوں۔‘‘
چوتھا طالب علم:’’میرے دوست کے گھر ماہ نامہ پیغام،پیغام اقبال ڈائجسٹ آتے ہیں ،پہلے شاہین اقبال ڈائجسٹ بھی آتا تھا۔‘‘
پانچواں طالب علم: ’’ہمارے گھر پر تو ماہ نامہ مسلمان بچے، ہلال فار کڈز، بزم قرآن، بچوں کا تنزیل آتے تھے۔اب مجھے پڑھنے سے زیادہ وڈیو گیمز کھیلنے کا شوق ہو گیا ہے تو اب رسائل نہیں خریدتا ہوں۔‘‘
چھٹا طالب علم:’’میری پھوپھو مجھے ماہنامہ ادبیات اطفال، بقعہ نور، ہمدرد نونہال بطور تحفہ بھیجتی ہیں۔‘‘
ساتواں طالب علم:’’ ہمارے گھر میں تو ماہ نامہ پکھیرو آتا ہے کہ وہ پنجابی زبان میں شائع ہوتا ہے اورمجھے اپنی مادری زبان میں پڑھنا بہت اچھا لگتا ہے۔‘‘
آٹھواں طالب علم:’’ میرے ابو کے دوست میرے لیے ہمیشہ ماہ نامہ بزم منزل اورکہکشاں لاتے ہیں۔‘‘
نواں طالب علم:’’ ہمارے ہاں بس سہ ماہی چاند سورج،سہ ماہی باغیچہ اطفال اوردو ماہی مہک ہی آتے ہیں۔‘‘
مقدس پروین: ’’مجھے بہت خوشی ہے کہ آپ سب رسائل میں دل چسپی رکھتے ہیں۔ آپ سب کو بتاتی چلوں کہ روزنامہ اساس، روزنامہ ایکسپریس، روزنامہ اوصاف، روزنامہ بدلتا زمانہ، روز نامہ جنگ ، روزنامہ کسوٹی،ہفت روزہ اخبارجہاں، ہفت روزہ نوائے وقت اورہفت روزہ مارگلہ نیوز میں بھی نونہالوںکے لیے تحریریں شائع ہوتی رہتی ہیں۔‘‘
بہرام : ’’کیا بھارت اورجموں کشمیر میں بھی بچوں کے لیے اخبارات ورسائل میں صفحات شائع ہوتے ہیں؟‘‘
مقدس پروین( مسکراتے ہوئے): ’’بالکل۔ روزنامہ نیا نظریہ، روزنامہ الحیات، روزنامہ ایک قوم، روزنامہ ایشیا ایکسپریس، روزنامہ منصف، روزنامہ لازوال، روزنامہ سنگم بچوں کے صفحات شائع کرتے ہیں جب کہ ماہ نامہ زبان و ادب بچوں کے لیے خصوصی گوشہ پیش کرتا ہے۔اس کے علاوہ ماہ نامہ گل بوٹے، صلاح کار،بچوں کی دنیا،امنگ ، باغیچہ، جنت کے پھول، اوردو ماہی ترجمان اطفال بھی شائع ہوتا ہے ۔الفجر ڈیجیٹل میگزین ،بنگلور سے شائع ہوتا ہے جس میں گوشہ اطفال شامل کیا جاتا ہے۔بھارت سے ہی بچوں کے لیے واحد ہفت روزہ اخبار خیراندیش کئی برسوں سے شائع ہو رہا ہے۔‘‘
(جوں ہی مقدس پروین صاحبہ نے اپنی گفتگوختم کی انھیں علم ہوا کہ مقررہ وقت ختم ہو چکا ہے کہ دوسرے پیریڈ کی گھنٹی بج چکی تھی۔انھوں نے تمام بچوں کو خدا حافظ کہا اورکمرہ جماعت سے باہر نکل گئیں۔اُن کے جاتے ہی تمام بچوں نے کمرہ جماعت میں حسب معمول شور شرابہ شروع کر دیا ۔)
پردہ گرتا ہے۔
ختم شد۔
٭٭٭

Advertisement

Advertisement
Author Image

Advertisement