For the best experience, open
https://m.lazawal.com
on your mobile browser.
اصلاح معاشرہ قرآن و سنت کی روشنی میں

اصلاح معاشرہ قرآن و سنت کی روشنی میں

11:25 PM Apr 28, 2024 IST | Editor
Advertisement
Advertisement

Advertisement

ڈاکٹر محمد بشیر ماگرے

معاشرہ افراد کا ایسا گروہ جو اس اصول پر آپس مین رہائش پذیر ہوں کہ ان کے مفادات مشترک ہوں۔ معاشرہ؛ افراد کے ایک ایسے گروہ کو کہا جاتا ہے کہ جس کی بنیادی ضروریات زندگی میں ایک دوسرے سے مشترکہ روابت موجود ہوں اور معاشرے کی تعفیف کے مطابق یہ لازمی نہیں کہ انکا تعلق ایک ہی قوم یا ایک ہی مذہب سے ہو۔جب کسی خاص قوم یا مذہب کی تاریخ کے حوالے سے بات کی جاتی ہے تو پھر عام طور پر اسکا نام معاشرے کے ساتھ اضافہ کردیا جاتا ہے جیسے ہندوستانی معاشرہ، مغربی معاشرہ یا اسلامی معاشرہ۔ اسلام میں مشترکہ بنیادی ضروریات زندگی کے اس تصور کو مذید بڑھا کر بھائی چارے اور فلح بہبود کے معاشرے کا قرآنی تصور، ایک ایسا تصور ہے کہ جس کے مقابل معاشرے کی تمام لغاتی تعریفیں اپنی چمک کھودیتی ہیں۔قرآن کی سورہ آل عمران میں آیت ۱۱۰ میں اس تصور کی ایک جھلک دیکھی جا سکتی ہے کہ معاشرہ کیسا ہونا چاہیے، ترجمعہ: تم اچھے کاموں کا حکم دیتے ہو اور برے کاموں سے منع کرتے ہو۔(۱)۔اس قرآنی تصور سے ایک ایسا معاشرہ بنانے کی راہ کھلتی ہے کہ جہاں معاشرے کا بنیادی تصور کے مطابق تمام افراد کو بنیادی ضروریات زندگی بھی میسر ہوں اور زہنی آسودگی بھی۔اور کسی بھی انسانی معاشرے اس وقت تک ایک اچھا معاشرہ نہیں کہا جاسکتا کہ جب تک اس کے ہر فرد کو نساوی انسان نہ سمجھا جائے، اور ایک کمزور کو بھی وہی انسانی حقوق حاصل ہوں جو ایک طاقتور کے پاس ہوں، خواہ یہ کمزوریطبعی ہو یا مالیاتی یا کسی اور قسم کی۔
اصلاح معاشرہ کے چند اہم اور غور طلب پہلو: قرآن سے غفلت؛ بہت سے گدی نشین، پیر اور مجاور حضرات ٹھاٹھ سے نذرانے وصول کرتے ہیں ہاتھ پائوں چومواتے ہیں، لیکن ان میں سے بیشتر کو قرآن پاک پڑھنا نہیں آتا ، قرآن سمجھنا اور اس پر عمل کرنا تو دور کی بات ہے۔جب کہ عام مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ انھیں کو سب کچھ سمجھے بیٹھے ہیں، ان حضرات کو دین کے ضروری مسائل کے ساتھ قرآن حکیم کی درست تلاوت کی تعلیم تو ضرور لے لینا چاہیے۔ ایک بار کا واقعہ ہے ایک عرس میں حاضری کے فاتح کے وقت گدی نشین صاحب نے خود تلاوت کی اور سورہ فاتحہ بھی صحیح نہ پڑھ سکے لیکن علماء کی موجودگی میں خود ہی تلاوت کی اور علماء سے ایک بار بھی تلاوت کی فرمائش نہیں کی، خود تو ٹھاٹھ سے گدی پر بیٹھے اور علماء کو سامعین کے ساتھ بیٹھایا، الغرض جہالت انتہا کو پہنچی ہوئی ہے پھر بھی علماء کی قدرو تعظیم کی طرف کوئی توجہ نہیں۔انہیں کے لئے قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’وہم بحسبون انہم یحسنون صنعا‘‘ (۲)۔ ترجمعہ؛ اور وہ اس خیال میں ہیں کہ اچھا کام کررہے ہیں۔
کچھ یہی حال ہمارے سیٹھ صاحبان کا ہے جو صرف فاتحہ کی دیگیں پکوانے اورلنگر تقسیم کرنے کو دین کا بڑا کام سمجھتے ہیں، سارا دن دنیا کمانے میں لگا دیتے ہیں ، مولویوں اور اماموں کو نیچا سمجھتے ہیں یہ روش نہ خدا کو بھاتی ہے نہ محبوبان خدا کو اچھی لگتی ہے،آپ بڑے ہوگئے ڈھیروں پیسے کمالئے تو اس سے بھی فرق نہیں پڑتا،قرآن صحت کے ساتھ اور دین کے ضروری احکام و مسائل کو جاننا بہرحال فرض ہے۔قرآن ہی کا فرمان ہے ’’ورتل القرآن ترتیلا‘‘(۳) ترجمہ: قرآن کو ترتیل(درستگی کے ساتھ) پڑھو۔اس آیت میں قرآن پڑھنے کی بھی تاکید ہے اور درست پڑھنے کی بھی صراحت ہے۔کچھ یہی حال اکثر طلباء اور مغربیت کے دلدادہ حضرات کاہے ،انہیں میں پروفیسر ہیں، ڈاکٹر ہیں،وائس چانسلر ہیں لیکن زیادہ تر ان عہدوں پر فائض اور دیگر ڈگری یافتہ لوگوں کا بھی معاملہ یہی ہے کہ فرفر انگریزی بولنی تو آجاتی ہے لیکن قرآن کی صحیح تلاوت سے بالکل محروم ہیں،ان کی ساری دانشوری اور سوجھ بوجھ یہاں فیل نظر آتی ہے۔جب کہ الحمدللہ اکثر مدارس کے اکثر طلباء فراٹے کے ساتھ انگلش بولتے ہیں ۔مگر افسوس کہ پر بھی بعض قلمکار اور بولنے والے حضرات مدارس اور مولویوں کو کوسنے اور طعنہ دینے سے نہیں چونکتے۔
قرآن مجید ایک منفرد کلام ہے جو انسانی اصلاح اور تزکیہ نفس سب سے بڑا زریعہ ہے، اس کے اثرات و برکات سے انسانی معاشرے میں پائی جانے والی سماجی برائیاں ،قتل و غارت، چوری ،ڈکیتی،بددیانتی، ظلم اور فسق و فجور کا خاتمہ ہوتا ہے، اور اس کے ساتھ ساتھ تمام روحانی و قلبی بیماریاں؛ کفر و شرک ، غرور تکبر،نفرت، تعصب، حسد حرص، لالچ اور بخل وغیرہ کا بھی خاتمہ ہوتا ہے اس سے انسانی معاشرے میں اور انسانی قلوب میں پاکیزگی عروج پاتی ہے۔ایمان سے مالا مال لوگ کتاب اللہ سے ہدایت طلب کرتے ہیں اور یہی کتاب انکے لئے ہدایت اور شفا کا سرچشمہ بنتی ہے ۔جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے۔’’ یا یھا الناس قد جا ء تکم مو عظۃ من ربکم و شفاء لما فی الصدور و ھدی و رحمۃ للمومنین‘‘(۴) لوگو تمہارے پاس پروردگار کی طرف سے نصیحت اور دلوں کی بیماریوں کی شفاء اور مومنوں کیلئے رحمت اور ہدایت آپہچی ہے۔ قرآن مجید دنیا کی منفرد کتاب ہے جس میں پوری انسانیت کیلئے تمام اخلاقی ، معاشرتی اور عالمی قوانین موجود ہیں ۔قرآن اصول و ضوابط کے اعتبار سے (اقوم)یعنی فطری ضابطوں کی حامل ہے ۔اس کا ذکر اسطرح آیا ہے: ’’ان ھذ االقرآن یہدی للتی ھی اقوم‘‘ (۵)بے شک قرآن ایک ایسے راستے کا تعین کرتا ہے جو سیدھا اور متوازن ہے ۔
شادی بیاہ کی رسمیں: آج کے دور میں شادی بیاہ کی رسموں میں خوب ترقیاں ہو گئی ہیں، لیکن اخلاقی اقدار گرتی جا رہی ہیں ، آپسی بھائی چارے کا جنازہ نکلتا جا رہا ہے۔جن کے پاس پیسے ہیں وہ یہ نہیں سوچتے کہ غریب کہاں جائیں گے۔بچیوں کی شادی اور اس کے لئے نمائشی جہیز کا انتظام کرنا ۔جہیز کے خلاف ایک تحریک چلانے کی ضرورت ہے۔قرآن کی تعلیم عام کرنے اسے سمجھنے اور عمل کرنے کی ضرورت ہے۔سرکارمدینہ ﷺ کا فرمان ایک عظمت نشان ہے، فرمایا ’’خیر کم تعلم القرآن و علمہ‘‘(۶)۔ ترجمہ: تم میں بہتر وہ ہے جو قرآن سیکھے اور دوسروں کر اس کی تعکیم دے۔
معاشرے کی تعمیرو تشکیل کا پیمانہ’ شرف انسانیت‘ کی بنیاد پر صرف قرآن پاک نے تعصبات کو مٹا کر بنیاد ڈالی ہے اور جس میں اعلیٰ اخلاقی محاسن کا تعین بھی کیا ہے۔اور ساتھ ہی ساتھ انتہائی وضاحت کے ساتھ شرف انسانیت کو مجروح کرنے والے عوامل کی حوصلہ شکنی کی ہے ۔ اسطرح انسانی جذبات و احساسات وافکار و نظریات اور اخلاق و کردار کو مجروح کرنے والے بیشتر عوامل کا ذکر کلام اللہ میں کیا گیا ہے، جن میں چند ایک کا مختصر ذکر کرنا بہت مناسب سمجھتا ہوں جیسے:
شرک کی ممانت، غرور و تکبر کی ممانت، لغویات سے دور رہنا، تمسخر نہ اڑانا،عیب جوئی کی ممانت، بدگمانی سے بچنا، غیبت کی ممانت،جلد بازی کی ممانت، اخلاق و معاشرت تضادات کی ممانت،تشدد کی ممانت،بد چلنی کی ممانت،وغیرہ وغیرہ۔
پہلا یہ کہ انسان اپنے رویے میں کسی بھی نسبت سے اللہ تعالیٰ کی زات، صفات اور اس کے تقاضوں شرک بالکل نہ کرے۔حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو نصحیت میں یہ پیغام دیا تھا:و از قال لقمان لا بنہ وھو یعظہ یبنی لا تشرک باللہ ان الشرک لظلم عظیم‘ (۷) اور اسوقت کو یاد کرو جب لقمان نے اپنے بیٹے کو نصحیت کرتے ہوئے کہا کہ بیٹا خدا کے ساتھ شرک نہ کرنا، شرک بہت بڑا ظلم ہے۔دوسرا یہ کہ کلام اللہ بیشتر مقامات پر انسان کو تلقین کرتا ہے کہ اپنے رویعے میں عاجزی اختیار کرو، غرور و تکبر پر مبنی رویہ اللہ تعالیٰ کو کسی بھی صورت میں پسند نہیں! ’’ولا تصعر خدک للناس ولا تمش فی الارض مرحا ان اللہ لا یحب کل مختال فخور‘‘ (۸)۔اور (از راہ غرور) لوگوں سے گال نہ پھلانا اور زمین میں اکڑ کر نہ چلنا ۔ کہ خدا کسی اترانے خود پسند کو پسند نہیں کرتا۔تیسرا یہ کہ لغویات سے دور رہنے کی تلقین کی گئی ہے۔فرمان الٰہی ہے ’’ ولذین ھم عن الغو معرضون‘‘ (۹)اور جو بے ہودا باتوں سے منہ موڑ تے رہتے ہیں۔چوتھا یہ کہ تمسخر نہ اڑانا: قرآن مجید فرقان حمید میں تمسخر کے پہلو کو اختیار نہ کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔اس بارے میں ارشاد خدا وندی ہے ’’ یا یھا الذین آمنو لا یسخر قوم من قوم عسیٰ ان یکونوا خیرا منھم‘‘ (۱۰)۔ مومنو! کوئی قوم کسی قوم کا تمسخر نہ کرے ممکن ہے کہ وہ لوگ ان سے بہتر ہوں اور عورتیں عورتوں سے (تمسخر) نہ کریں ہو سکتا ہے وہ ان سے اچھی ہوں۔
پانچواں : عیب جوئی کی ممانت؛ اللہ تعالیٰ کا ایک صفاتی نام ’ستار العیوب‘ ہے،صرف اللہ کی زات ہر عیوب اور نقائص سے مبرا ہے! اہل ایمان کے لئے یہ حکم ہے کہ کسی کے عیوب اور بشری کمزوریوں کو لوگوں کے سامنے بیان نہ کیا جائے،چونکہ کسی کے عیوب پر پردہ ڈالنا اعلیٰ اخلاق کی علامت ہے ۔کلام اللہ میں فرمان ربی ہے ’’ولا تلمیزوا انفسکم ولا تنابزوا بالالقاب بئس الاسم الفسوق بعد الایمان ومن لم یتب فاولئک ھم الظالمون‘‘ (۱۱)اور اپنے (مومن بھائی)کو عیب نہ لگائو اور نہ ایک دوسرے کا برا نام رکھو ایمان لانے کے بعد ،برا نام (رکھنا) گناہ ہے اور جو توبہ نہ کریں وہ ظالم ہیں۔چھٹا : بد گمانی سے بچنا؛ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ انسان دو جہاں میں بیک وقت زندگی گذارتا ہے، ایک جہاں ہے جہاں وہ دیکھتا، سنتا، چلتا پھرتا ہے ، مگر اس سے اہم’’ تصورات کا جہاں ‘‘ ہے جس میں انسان خیالات، تصورات اور نظریات کو پروان چڑھاتا ہے ۔اللہ جلیٰ شانہ کا فرمان ہے ’’یایھا الذین آمنوا آجتنبوا کثیرا من الظن ان بعض الظن اثم ولا تجسسوا‘‘ (۱۲)۔ اے ایمان والو بہت گمان کرنے سے احتراز کرو کہ بعض گمان گناہ ہیں اور ایک دوسرے کے حال کا تجسس نہ کیا کرو۔حضور ﷺ نے بھی فسق و فجور جیسی عادات سے بچنے کی تلقین کی ہے۔ساتواں: غیبت کی ممانت؛ کسی کی عدم موجودگی میں برائی کرنا غیبت کہلاتا ہے۔یہ معاشرے میں ایک سماجی برائی ہے جس سے نفرت ، تعصب و عداوت کے جذبات ابھرتے ہیں اور معاشرتی بگاڑ کا سبب بنتی ہے۔اگر یہ عادت انسان میں آجائے تو انسان کا مجموعی کردار مسخ ہوجاتا ہے اوراخلاقی بیماریاں جیسے غرور و تکبر، بغض، کینہ، حسد، ظلم، فسق و بے رحمی وغیرہ کا سبب بنتی ہے۔قرآن میں باری تعالیٰ نے اسے ناپسندیدہ عمل بتایا ہے! ’’ولا یغتب بعضکم بعضا ایحب احدکم ان یاکل لحم اخھہ میتافکرھتمون‘‘(۱۳) اور نہ کوئی کسی کی غیبت کرے کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرے گا کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے اس سے تو تم ضرور نفرت کروگے (تو غیبت نہ کرو) حضور ﷺ نے بھی اپنی معاشرتی و اخلاقی تعلیمات میں غیبت، بہتان تراشی اور چغلی کی سخت ممانت فرمائی ہے۔آٹھواں: جلد بازی کی ممانت؛ قرآن کریم فرقان حمید میں اللہ تعالیٰ نے اس امر کی تلقین کی ہے کہ ایل ایمان کبی جلدبازی پر مبنی اظہار نہ کریں جو تکلیف یا نقصان کا باعث بنے۔ سنی سنائی باتوں، من گھڑت افوہوں اور خبروں کی بنیاد پر اپنے طرظ عمل کو نہ اپنائے بلکہ سنجیدگی ،وقار اور متانت کو بنیاد بنانا چاہیے۔ کلام اللہ کا فرمان ہے کہ ’’یایھا لذین امنو ان جاء کم فاسق بنباء فتبینوا ان تصیببوا قوما بجھالتہ فتصبحوا علیٰ ما فعلتم نادمین‘‘ (۱۴)مومن! اگر کوئی بدکردار تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو خوب تحقیق کرلیا کرو(مبادا) کہ کسی قوم کو نادانی سے نقصان پہچاد پر تم کو اپنے کئے پر نادم ہونا پڑے۔اسلئے اسلام جلد بازی کے مقابل غور و فکر، تصدیق اور سنجیدگی کو اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے ۔ نواں:خلاقی و معاشرتی تضادات کی ممانت؛ اسلام ایک فطری دین ہے اور ہر مومن کو چاہیے کہ اپنی سوچ، قول و فعل میں یکسانیت اختیار کرے،جہاں یکسانیت کا ذکر خصوصیت کے ساتھ کیا گیا ہے وہاں ہی اسلامی تعلیمات میں فکر، نظریہ اور عقیدہ کی درستگی اور پختگی کو بھی اولین تقاضا قرار دیا گیا ہے۔اسکے ساتھ اہل ایمان کے اخلاقی و معاشرتی کردار کا ایک نمایاں پہلو بھی آتا ہے ۔قرآن پاک میں ایل ایمان کو اس طرز عمل سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے۔’’یایھا الذین آمنوا لم تقولون ما لا تعلمون، کبر مقتا عند اللہ ان تقولوا ما لا تفعلون‘‘(۱۵)۔مومنو! تم ایسی باتیں کیوں کہا کرتے ہو جو کیا نہیں کرتے خدا اس بات سے سخت بیزار ہے کہ ایسی بات کہو جو کرو نہیں۔دسواں: تشدد سے ممانت؛ اسلام امن،سلامتی، عقیدت اور احترام کا دین ہے۔اسلامی تعلیمات میں ظلم،ناانصافی،اور تشدد کے تمام پہلووں کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے۔ہر انسان کو آزاد حیثیت سے زندہ رہنے کا حق ہے جس کے لئے اسلام نے باقائدہ حدود کا تعین کیا ہے اور ان حدود کی خلاف ورزی کرنے والے کو اسلام سزا کا اعلان کرتا ہے۔ کلام اللہ آیا ہے ’’ولایقتلون النفس التی حرم اللہ الا بالحق‘‘ (۱۶)۔اور جس جاندار کو مار ڈالنا خدا نے حرام کیا ہے اس کو قتل نہیں کرتے مگر جائز طریق (یعنی شریعت کے حکم سے۔اسی طرح ناحق قتل کرنے کو اسلامی اصول و احکام میں پوری انسانیت کا قتل قرار دیا ہے۔گیارواں: بد چلنی کی ممانت؛ اسلام پاکیزگی کا دین اور پاکیزہ اخلاق و کردار کا ضامن بھی۔دین متین نے عزت و ناموس کی پاکیزگی کو یقینی بنانے کیلئے معاشرے میں بد چلنی ،زناکاری، فوایش و لغویات جیسے امور پر سخت پابندی عائد کی گئی ہے ایسے چلن پر اسلام نے سزائوں کا تعین کیا ہے قرآن پاک میں آیا ہے ’’الزانیۃ والزانی فاجلدواکل واحد منھما مئیۃ جلدۃ‘‘ (۱۷) بدکاری کرنے والی عورت اور مرد (جب ثابت ہوجائے) تو دونوں میں ہر ایک کو سو درے مارو۔حضور ﷺ نے فرمایا: ’’کلکم راع و کلکم مسئول عن رعیتہ‘‘ (۱۸)۔ تم سب ذمہ دار ہو اور تم سب سے اپنے ماتحتں کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔مسلمان مرد و عورت کی ذمہ داری ہے صالح معاشرہ اپنے ایمان و عقیدہ کے زریعہ اچھائیوں کو پھیلائے اور برائیوں کو مٹانے کی کوشش و فکر کرے۔انسان کے اندر معاشرے کے تئیں ایمان کا ادنیٰ سے ادنیٰ درجہ ہونا لازمی ہے، جس کے زریعے وہ معاشرے میں اپنا رول جتنا نباہ سکتا ہے نبائے چونکہ آپ کو اپنی صلاحیتوں کے مطابق معاشرے کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ حضور بنی لولاک ﷺ کا ارشاد ہے ’’من رای منکم منکرا فلیغیرہ بیدہ فان لم یستطع فبلسانہ فان لم یستطع فبقلبہ و ذلک الا یمان‘‘ (۱۹) یعنی تم میں سے جو شخص بھی کسی منکر (غلط کام) کو دیکھے اسے اپنے ہاتھ سے مٹائے، اگر اس کی طاقت نہ ہو تو اپنی زبان سے نکیر کرے ،اگر اس کی بھی استطاعت نہ ہو تو دل سے مٹائے یعنی دل میں برائی کودیکھ کر کڑھن پیدا ہو اور اس برائی کو ختم کرنے کی فکر کرے، اور یہ ایمان کا ادنیٰ درجہ ہے۔ اور ایک روایت میں ہے کہ اس سے نیچے ایمان کا معمولی درجہ بھی نہیں۔
سنا تھا فرشتے جان لیتے ہیں ۔۔!! خیر چھوڑو اب انسان لیتے ہیں۔۔!!
خلاصہ: اسلامی معاشرے میں قرآن مجید میں مذکور اور امر و نواہی کا صرف اور صرف مقصد یہ ہے کہ انسان کی انفرادی اور اجتمائی زندگی پاکیزہ ہو اور انسان کو تمام نسبتوں کے اعتبار سے ہدایت نصیب ہو۔ یقینا وہ لوگ جو قرآنی تعلیمات کے مطابق اپنی زندگی کے امور ترتیب دیتے ہیں ان کے دنیاوی معاملات میں بہتری آتی ہے فکر اور نظریے کی پاکیزگی ، عمل و کردار کی سچائی اور اعلیٰ اخلاقی اوصاف ترتیب و تشکیل پاتے ہیں اور انسان ہدایت کی دنیا کو دریافت کرتا ہے۔ آج کے اس کسم پرسی اور محتاجی کے دور میں ہر مسلمان کو قرآن مجید اور سنت رسول ﷺ کی طرف رجوع کرنا چاہیے اور قرآن و سنت نبوی ﷺ کے اوامرونواہی کے پہلوں کو سامنے رکھکر اپنی زندگی اور معاشرتی معاملات ترتیب دینے ہونگے، کیونکہ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اگر کوئی قوم آسمانی حقائق (وحی) اور سنت رسول ﷺ کو بنیاد بنا کر اپنے معاشرتی معاملات کا تعین کرتی ہے تو وہ قوم دنیا میں عزت اور سربلندی پاتی ہے۔اللہ تعالیٰ کی خصوصی رحمتیں اور برکتیں نصیب ہوتی ہے۔امن ،اطمینان، سلامتی، اور خیر و برکت کے دروازے کھل جاتے ہیں۔میری یہ دعا ہے کہ:
منزل و مقصود و قرآن دیگر است رسم ای مسلماں دیگر است
ماخذ: (۱)قرآن، سورہ آل عمران میں آیت ۱۱۰۔ (۲)قرآن، الکھف :۱۰۴، ۱۸۔ (۳)قرآن: المزمل:۴،۷۳)۔(۴)المائدہ، ۵، :۸۴:۵ ۔ (۵) البقرہ ،۵۸۱: ۲ (۶)القرآن ،المائدہ: ۸۴:۵۔ (۷) القرآن: لقمان،۱۳: ۳۱۔(۸) القرآن ، لقمان: ۸۱:۱۳۔ (۹)القرآن ،المومنون: ۳۲: ۳۔ (۱۰)القرآن، الحجرات؛۱۱: ۹۴۔(۱۱) القرآن؛ الحجرات؛۲۱؛ ۹۴۔ (۱۲) القرآن؛ الحجرات ؛ ۶؛ ۹۴۔(۱۳)القرآن؛ الحجرات؛ ۹۴؛ ۶۔ (۱۴)القرآن؛ الفرقان؛۵۲؛۳۷۔ (۱۵) القرآن ؛ الصف؛ ۳؛۲؛۱۶۔ (۱۶) القرآن؛ الفرقان؛۷۶؛۵۲۔(۱۷) القرآن ؛ النور؛ ۲؛ ۴۲۔(۱۸) البخاری ؛ حدیث؛۴۱۳۲۔(۱۹) مسلم شریف ؛ حدیث ؛۱۲۲۔
٭ڈاکٹر محمد بشیر ماگرے،پروفیسر آف جغرافی،ریٹائرڈ کالج پرینسیپل،ڈی سی کالونی راجوری جموں کشمیر الھند۔
Email:magraymb.1955@gmail.com . Cell: 9419171179

Advertisement
Author Image

Advertisement