For the best experience, open
https://m.lazawal.com
on your mobile browser.
ارض مقدس خون میں ڈوبا ہوا ہے

ارض مقدس خون میں ڈوبا ہوا ہے!

11:52 PM Jun 02, 2024 IST | Editor
Advertisement
Advertisement

۰۰۰
ریاض فردوسی
9968012976
۰۰۰
تیری تذلیل کے داغوں کی جلن دل میں لیے
تیری حرمت کے چراغوں کی لگن دل میں لیے
تیری الفت،تری یادوں کی کسک ساتھ گئی
تیرے نارنج شگوفوں کی مہک ساتھ گئی
سارے ان دیکھے رفیقوں کا جلو ساتھ رہا
کتنے ہاتھوں سے ہم آغوش مرا ہاتھ رہا
دور پردیس کی بے مہر گذرگاہوں میں
اجنبی شہر کی بے نام و نشاں راہوں میں
جس زمیں پر بھی کھلا میرے لہو کا پرچم
لہلہاتا ہے وہاں ارضِ فلسطیں کا علم
تیرے اعدا نے کیا ایک فلسطیں برباد
میرے زخموں نے کیے کتنے فلسطیں آباد
فیض احمد فیض

Advertisement

پورے خطہ عرب میں برطانوی استعمار پسندوں،آل سعود اور اس کے معاون حکمرانوں کی نا اہلی اور بزدلی کے سبب 1948ء میں فلسطین کی تقسیم کی ہوئ۔
14 مئی 1948ء کو ازاد اسرائیلی ریاست کا قیام عمل میں ایا،جو اج تک فلسطینی مسلمانوں پر ظلم وبربریت کے پہاڑ تو ڑ ہی ہے اور مشرقٍ وسطیٰ میں قیام امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد اقوام متحدہ نے فلسطین میں دو ریاستوں کے قیام کی قرارداد پیش کردی تھی جوکثرت رائے سے منظور بھی ہوگئی تھی کہ ایک یہودی ریاست اور دوسری ازاد عرب ریاست۔ پہلے تواس مسئلے پر مسلمان بھی مشکوک تھے مگر بعدازاں انہوں نے یہ حل منظور کرلیا مگر اسرائیل نے امن منصوبہ کو یکسر مسترد کر دیا کہ یروشلم کے مقامات مقدسہ یہودیوں کے تعمیر کردہ ہیں۔ان پر صرف یہودیوں کا حق ہے۔تب سے یہ تنازعہ شدید سے شدید تر ہوتا جا رہا ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے سلامتی کونسل میں اعتراف کیا ہے کہ 56 سالوں سے فلسطینیوں کی سرزمین پر اسرائیل پر قبضہ کیا ہوا ہے، ان کی زمینوں پر، کاروبار پر، ان کی مساجد پر قبضہ کیا، خود ا?ئرلینڈ کی اسمبلی کی خاتون رکن کہتی ہیں کہ 2006 سے 2022 تک غزہ محاصرے میں رہا اور اس محاصرے میں ڈھائی لاکھ سے زائد فلسطینی مسلمان شہید ہو چکے ہیں جس میں 33 ہزار عورتیں،بچے اور بیٹیاں ہیں۔
7 اکتوبر سے اج تک 70 ہزار سے زائد لوگ شہید ہوچکے ہیں، ظالم اسرائیلی فوج نے ہسپتالوں پر بمباری کی،اسکولوں پر بمباری کی، کھیلوں کے میدانوں پر بمباری کی،شہری ابادی پر بمباری کی،جس فوج کی بہادری کی تعریف ہماری ایمان فروش میڈیا کرتی ہے،اس کی بہادری صرف اور صرف بچوں،عورتوں،کمزوروں،بیماروں اور بزرگوں پر ہی ثابت ہوتی ہے۔
آخر میں!
بیت المقدس کی ازادی کے لئے جہاد صرف عربوں کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ ہر کلمہ گو مسلمان کا مسئلہ ہے،مسلمان حکمرانوں نے زندہ و جاوید عالم اسلام کو مردوں کا قبرستان بنا دیا ہے۔آج ڈارھی اور ٹوپی کو لے کر ہنگامہ ہے،شرک اور بدعت کو لے حدیث پاک کا بے دریغ استعمال چند جاہل مسلمانوں کے ل کیا جاتا ہے۔
ڈارھی کی فرضیت پر اتنا باویلا مچانے والوں،کیا جہاد فی سبیل اللہ کے لئے حدیث نبوی موجود نہیں ہے؟
شرک و بدعات کو لے کر چند ناسمجھ جاہل مسلمانوں کو تذلیل کا نشانہ بنانے والوں
کیا شعائر اسلام کے ل تلوار اٹھانے پر حدیث پاک ? موجود نہیں ہے؟
کیا تمہاری تمام روایتیں اور تمام علوم کا مرکز مسلمانوں کو ان کی غلطیوں کی نشاندھی کرنے میں ہی ہے،کیا ظلم اور بربریت کے خلاف صف آراء ہونے کے لئے ایک بھی قول نبی کریم کا موجود نہیں ہے؟
اج فاروق اعظم حضرت عمر اور حضرت علی کرم اللہ وجہ ہوتے تو ان کا یہی فتویٰ ہوتا کہ غزہ کے مسلمانوں کا ساتھ دیا جائے،اور ظالم و جابر طاغوتی طاقتوں کے پرستاروں کے خلاف جہاد کیا جائے۔
کیا ہمیں یاد نہیں کہ جنگ خیبر ایک مسلمان عورت کی ناموس کے خاطر لڑی گئی تھی۔
صرف صحیح مسلم باب فَض اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔
اس باب میں 8 احادیث آئی ہیں۔
اے مسلمانوں ہم کس کو خوش کرنا چاہتے ہیں؟
کس کو پیغام دینا چاہتے ہیں،کہ ہم امن کے خواہاں ہیں؟
کیا ہم مسلمان بچوں،عورتوں،بڑھوں،مریضوں کی لاشوں کو فروخت کرکے امن کے پیغامبر بننا چاہتے ہیں؟
یاد رکھنا مسلمانوں جب تک کسی بھی ظالم کا ظلم جاری ہے، جب تک مسلمانوں کے خلاف جنگ بند نہیں ہوتی،جب تک اسرائیل یا کوء ظالم کی دہشت گردی ختم نہیں ہوتی،
جب تک اسرائیل مسلمانوں کی پاک اور مقدس سرزمین کو چھوڑتا نہیں ہے،تب تک ہم پر جہاد فرض ہے۔
ہم اپنے ملک بھارت میں عظیم الشان مظاہرے کر کے فلسطینیوں کی حمایت کا اعلان کر سکتے ہیں،یہ بھی ایک طرح سے جہاد ہوگا۔
سعودی فرمانروا اور تمام تر نام و نہاد مسلم حکمرانوں نے اب تک وہ فرض ادا نہیں کیا جو اللہ کی طرف سے ان پر فرض ہے۔اگر ان نام و نہاد مسلم حکمرانوں کے دل اپنے مسلم بچوں،ماؤں،بہنوں،بیٹیوں،بڑھوں لاشوں کو دیکھ کر،سسکتی آہیں،لرزتے ہونٹوں کو دیکھ کر بھی غیرت ایمانی اور شوق شہادت سے خالی ہیں،تو یاد رکھئے یہ سب کچھ ہو سکتے ہیں،مگر مسلمان نہیں ہو سکتے۔
ماخوذ۔از۔مولانا داود راز رحم الل، فوائد و مسائل، تحت الحدیث ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اللہ کی راہ میں (جہاد کے لیے) نکلا، اللہ اس کا ضامن ہو گیا(صحح البخاری/ِتَاب المَانِ: 36)
’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ ایمان کا ایک جز و اعظم ہے۔
جہاد مع النفس ہو(یعنی نفس کے ساتھ جہاد ہو) جہاد بالکفار ہو تو یہ بھی ایمان کا حصہ ہے۔
جہاد اگر رمضان شریف میں واقع ہو تو اور زیادہ ثواب ہے۔پھر اگر شہادت فی سبیل اللہ بھی نصیب ہو جائے تو نور علی نور ہے۔
حدیث سے جہاد کا مفہوم ظاہر ہے کہ مجاہد فی سبیل اللہ صرف وہی ہے،جس کا خروج خالص اللہ کی رضا کے لیے ہو۔اکر مومن بندے نے دنیا میں اپنی تمام تر نفسانی خواہشات کو کچل کر جہاد فی سبیل اللہ کیا تو،مجاہد فی سبیل اللہ کے لیے،
اللہ تعالی نے دو ذمہ داریاں لی ہیں۔اگر اسے درجہ شہادت مل گیا تو وہ سیدھا جنت میں داخل ہوا،حوروں کے پاس پہنچا اور حساب و کتاب سب سے مستثنیٰ ہو گیا۔وہ جنت کے میوے کھاتا ہے اور معلق قندیلوں میں بسیرا کرتا ہے اور اگر وہ سلامتی کے ساتھ گھر واپس آ گیا تو وہ پورے پورے ثواب کے ساتھ اور ممکن ہے کہ مال غنیمت کے ساتھ بھی واپس ہوا ہو۔
حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود شہادت کی تمنا فرمائی ہے۔جس سے آپ امت کو مرتبہ شہادت بتلانا چاہتے ہیں۔قرآن مجید سورہ التوبہ آیت۔111میں اللہ نے مومنوں سے ان کی جانوں اور مالوں کے بدلے میں جنت کا سودا کر لیا ہے جو بہترین سودا ہے۔
حدیث شریف میں جہاد کو قیامت تک جاری رہنے کی خبر دی گئی ہے۔
حضرت حکم بن عبدالسلام رَضِیَ اللہْ تَعَالٰی عَنہْ سیمروی ہے (کہ جنگِ موتہ میں) جب حضرت جعفر بن ابو طالب رَضِیَ اللہْ تَعَالٰی عَنہْ شہید کر دیئے گئے تو لوگو ں نے بلند اواز سے حضرت عبداللہ بن رواحہ رَضِیَ اللہْ تَعَالٰی عَنہْ کو پکارا۔اپ رَضِیَ اللہْ تَعَالٰی عَنہْ اس وقت لشکر کی ایک طرف موجود تھے اور تین دن سے اپ رَضِیَ اللہْ تَعَالٰی عَنہْ نے کچھ بھی نہ کھایا تھا اور اپ رَضِیَ اللہْ تَعَالٰی عَنہْ کے ہاتھ میں ایک ہڈی تھی جسے بھوک کی وجہ سے چو س رہے تھے۔ (جب حضرت جعفربن ابوطالب رَضِیَ اللہْ تَعَالٰی عَنہْ کی شہادت کی خبر سنی) تو اپ رَضِیَ اللہْ تَعَالٰی عَنہْ نے بے تاب ہو کر ہڈی پھینک دی اور یہ کہتے ہوئے اگے بڑھے: اے عبداللہ! ابھی تک تیرے پاس دْن?یَوی چیز موجود ہے ! پھر اپ رَضِیَ اللہْ تَعَالٰی عَنہْ بڑی بے جگری سے دشمن پر ٹوٹ پڑے ،اس دوران تلوار کے وار سے اپ رَضِیَ اللہْ تَعَالٰی عَنہْ کی انگلی کٹ گئی تو اپ رَضِیَ اللہْ تَعَالٰی عَنہْ نے یہ اشعار پڑھے:
تو نے صرف یہ انگلی کٹوائی ہے اور راہِ خدا عَزَّوَجَلَّ میں یہ کوئی بڑا کارنامہ نہیں۔ اے نفس! شہید ہوجا ورنہ موت کا فیصلہ تجھے قتل کرڈالے گا اور تجھے ضرور موت دی جائے گی۔ تو نے جس چیز کی تمنا کی تجھے وہ چیز دی گئی۔ اب اگر تو بھی ان دونوں ( یعنی حضرت زید بن حارث اور حضرت جعفر بن ابوطالب رَضِیَ اللہْ تَعَالٰی عَنہْمَا)کی طرح شہید ہو گیا تو کامیاب ہے اور اگر تو نے تاخیر کی تو تحقیق بد بختی تیرا مقدر ہوگی۔پھر اپنے نفس کو مْخاطَب کر کے فرمانے لگے: ’’اے نفس !تجھے کس چیز کی تمنا ہے؟ کیا فلاں کی ؟ تو سن! اسے تین طلاق۔ کیا تجھے فلاں فلاں لونڈی وغلام اور فلاں باغ سے محبت ہے؟ تو سن ! اپنی یہ سب چیزیں اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول صَلَّی اللہْ تَعَالٰی عَلَی?ہِ وَاٰلِہ? وَسَلَّمَ کے لئے چھوڑ دے۔ اے نفس! تجھے کیا ہوگیا کہ تو جنت کو ناپسند کررہا ہے ؟ میں اللہ تعالیٰ کی قسم کھاتا ہوں کہ تجھے اس میں ضرور جانا پڑے گا، اب تیری مرضی چاہے خوش ہوکر جایا مجبور ہو کر۔جا! خوش ہو کر جا! بے شک تو وہاں مطمئن رہے گا،تو پانی کا ایک قطرہ ہی تو ہے(پھر اپ رَضِیَ اللہْ تَعَالٰی عَنہْ دشمن کی صفوں میں گھس گئے اور بالاخر لڑتے لڑتیجامِ شہادت نوش فرماگئے۔(عیون الحکایات، الحکای السادس والسبعون بعد الثلاث مائ، ص۔328۔329)

Advertisement
Author Image

Advertisement